Monday 23 September 2013

ہائے چنچی ہائے !!‌











ہمارے ایک قریبی دوست کو عشق کا نہیں بلکہ عشق کرنے کا بخار چڑھا مگر انکو اپنی دال یونیورسٹی میں تو  غلتی دکھائ نا دے رہی تھی-  اب جب بھی وہ اپنے بقیہ کام یعنی مراسلوں کی تکمیل کی طرف بڑھتے تو انہیں لکھنے کے لئے کوئ خاص موضوع نہ ملتا  جو معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہا ھو۔ ۔ چونکہ وہ دوست حادثاتی طور پر ابلاغ عامہ میں آٹپکے تھے تو انہیں زبردستی ھی لکھنا پڑرہا تھا اور جب بھی وہ کسی طرح اپنے انتھائ فارغ وقت میں سے اس کام کو اپنا وقت دیتے تو انکے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا کے یونیورسٹی تک آجانے کہ بعد بھی انہیں عشق نہ ھوا؟ 
 اگلے دن جب وہ جامعہ جانے کی غرض سے اپنی کار میں سوار ہوئے ھی تھے کہ انکی نظر اپنی گاڑی کے آگے چلنے والے چنچی پر پڑی اور ایسی پڑی کہ بس تھم سی گئی اور وہ اپنے دل سے کہنے لگے۔۔۔ یہی ھے وہ جو بیٹھی تو چنچی کی پچھلی طرف کو ہے مگر گاڑی کے اندر محسوس ھو رھی ھے۔ ۔ ۔ اب آپ لوگ خود بتائیے کہ اگر کوئ شخص گاڑی چلاتے ہوئے اپنے دماغ آخر میں اتنی گہری سوچوں میں گم رھیگا تو اسکا کیا نتیجہ نکلے گا؟ جی ہاں آپ صحیح سمجھے۔ ۔ چنچی ڈرائیور نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ھوئے اچانک اپنی سمت بائیں عور کرلی اور ھمارے دوست کی نظریں جو کسی حسین تخلیق پر جمی ہوئیں تھی اب اس کا سامنا منہ میں گٹکا دبائے ھوئے بس کنڈکٹر سے ھوا اور میرا دوست اس کنڈکٹر کے حسن کی تاب نا لاتے ہوئے سیدھا اس بس میں ہی جا ٹکرایا۔ ۔ اور جب میں اس سے ملنے ھسپتال گیا تو چپ چاپ بیٹھا کچھ لکھ رھا تھا اور جب مینے دریافت کیا تو غم زدہ لہجے میں کہنے لگا۔ ۔ ۔ مراسلہ لکھ رہا ہوں اور عنوان ھے "کمسن چنچی 
ڈرائیور" بس تب سے جو ھنسی شروع ھوئی وہ اب تک نہ تھمی ۔ ۔ ۔ 

1 comment: